۔ سوال : امام مسجد کی تنخوا کتنی ہونی چاہیے ؟ اور کم دینے پرمتولی اوراہل محلہ گناہ گار ہوں گے یا نہیں ؟
جواب : رسول اللہ صلی اللہ تعالی علیہ وسلم نے فرمایا کہ قیامت کے روز تین آدمیوں کے خلاف میں مدعی ہوں گا ۔ ان میں سے ایک وہ شخص ہے جو کسی کو ملازم رکھے اور اس سے کام پورا لے مگر مزدوری پوری نہ دے ( بخاری ) مزدوری پوری نہ دینے کا مطلب صرف اتنا نہیں کہ اس کی مزدوری مار لے اور پوری نہ دے بلکہ یہ بھی ہے کہ جتنی اجرت اس کام کی ملنی چاہیے اتنی نہ دے اور اس کی مجبوری سے فائدہ اٹھا کر کم سے کم تنخواہ پر کام لے فقہائے کرام نے تصریح کی ہے کہ مسجد و مدرسہ کے ذمہ داروں پر لازم ہے کہ خادمان مساجد و مدارس کو ان کی حاجت کے مطابق اور ان کی علمی و عملی قابلیت اور تقوی و صلاح کو ملحوظ رکھتے ہوۓ تنخواہ دیتے رہیں باوجود گنجائش کے کم دینا غلط ہے اور روز قیامت جوابدہی ہوگی تنخواہ کی مقدار تو حالات کے اعتبار سے مختلف ہو گی خود اہل محلہ اپنے گھریلو اور دیگر اخراجات کو دیکھیں کہ خرچہ کتنا ہے ، پھر یہی ضروریات امام مسجد کی بھی ہیں ، اگر مسجد کا فنڈ موجود ہے اور اسے مزید بڑھانے کی فکر بھی رہتی ہے لیکن امام ومؤذن کی تنخواہ اتنی کم ہو جس کو تنخواہ کہنا بھی مشکل ہو تو ایسے منتظم ومتولی روز حشر حساب دیں گے ۔ یہ تو دوسرے کے مال میں بخل ہے کہ چندہ تو اہل محلہ دیتے ہیں لیکن جس کے پاس جمع ہو وہ اس کو مصرف یعنی امام ومؤذن کی تنخواہ و دیگر ضروریات میں خرچ کرنے سے اس کی کمی کا خوف رکھتے ہیں