اسلام علیکم و رحمتہ اللہ و برکاتہ
نماز کا بیان
نماز بہت اھم عبادت ہے اس لیے نماز پڑھنے میں دکھاوا اور ریا نہیں ہونی چاہیے
بلکہ اخلاص اور رضائے الٰہی مقصود ہو تاکہ فرض بھی ادا ہو اور ثواب بھی حاصل ہو نماز بہت ہی اہم عبادت ہے اس لئے نماز ادا کرنے میں دکھاوا اور ریا نہیں ہونی چاہئے بلکہ اخلاص اور رضاۓ الہی مقصود ہو تاکہ فرض بھی ادا ہو اور ثواب بھی حاصل ہو اور اگر ریا کے ساتھ نماز ادا کیا تو فرض تو ادا ہوجاےگا مگر اخلاص نہ ہونے کی وجہ سے ثواب سے محروم رہےگا اور اگر صرف دکھاوے کے لئے عمل کرتا ہے تو یہ حرام ہے
جیسا کہ حضور صدرالشریعہ بدرالطریقہ حضرتِ علامہ مولانا امجد علی اعظمی علیہ الرحمہ تحریر فرماتے ہیں
عبادت کوئی بھی ہو اس میں اخلاص نہایت ضروری چیز ہے یعنی محض رضائے الہی کے لیے عمل کرنا ضرور ہے۔ دکھاوے کے طور پر عمل کرنا بالاجماع حرام ہے، بلکہ حدیث میں ریا کو شرک اصغر فرمایا اخلاص ہی وہ چیز ہے کہ اس پر ثواب مرتب ہوتا ہے، ہوسکتا ہے کہ عمل صحیح نہ ہو مگر جب اخلاص کے ساتھ کیا گیا ہو تو اس پر ثواب مرتب ہو مثلاً لا علمی میں کسی نے نجس یعنی ناپاک پانی سے وضو کیا اور نماز پڑھ لی اگر چہ یہ نماز صحیح نہ ہوئی کہ صحت کی شرط طہارت یعنی پاکی تھی وہ نہیں پائی گی مگر اس نے صدق نیت اور اخلاص کے ساتھ پڑھی ہے تو ثواب کا ترتب ہے یعنی اس نماز پر ثواب پائے گا مگر جبکہ بعد میں معلوم ہوگیا کہ ناپاک پانی سے وضو کیا تھا تو وہ مطالبہ جو اس کے ذمہ ہے ساقط نہ ہوگا، وہ بدستور قائم رہے گا اس کو ادا کرنا ہوگا۔ اور کبھی شرائط صحت پائے جائیں گے مگر ثواب نہ ملے گا مثلا نماز پڑھی تمام ارکان ادا کیے اور شرائط بھی پائے گئے، مگر ریاکے ساتھ پڑھی تو اگرچہ اس نماز کی صحت کا حکم دیا جائے مگر چونکہ اخلاص نہیں ہے تو ثواب نہیں ملیگا
ریا کی دو صورتیں ہیں، کبھی تو اصل عبادت ہی ریا کے ساتھ کرتا ہے کہ مثلا لوگوں کے سامنے نماز پڑھتا ہے اور کوئی دیکھنے والا نہ ہوتا تو پڑھتا ہی نہیں یہ ریائے کامل ہے کہ ایسی عبادت کا بالکل ثواب نہیں ملیگا۔ دوسری صورت یہ ہے کہ اصل عبادت میں ریا نہیں، کوئی ہو یا نہ ہو بہرحال نماز پڑھتا ہے مگر وصف میں ریا ہے کہ کوئی دیکھنے والا نہ ہوتا جب بھی پڑھتا مگر اس خوبی کے ساتھ نہ پڑھتا۔ یہ دوسری قسم پہلی سے کم درجہ کی ہے اس میں اصل نماز کا ثواب ہے اور خوبی کے ساتھ ادا کرنے کا جو ثواب ہے وہ یہاں نہیں ملیگا کہ یہ ریا سے ہے اخلاص سے نہیں
فرائض میں ریا کو دخل نہیں اس کا یہ مطلب نہیں کہ فرائض میں ریا پایا ہی نہیں جاتا اس لئے کہ جس طرح نوافل کو ریا کے ساتھ ادا کرسکتا ہے ہوسکتا ہے کہ فرائض کو بھی ریا کے طور پر ادا کرے بلکہ مطلب یہ ہے کہ فرض اگر ریا کے طور پر ادا کیا جب بھی اس کے ذمّہ سے ساقط
ہو جاۓ گا اگر چہ اخلاص نہ ہونے کی وجہ سے ثواب نہ ملےگا اور یہ بھی مطلب ہوسکتا ہے کہ اگر کسی کو فرض ادا کرنے میں ریا کی مداخلت کا اندیشہ ہو تو اس مداخلت کو اعتبار کرکے فرض کو ترک نہ کرے بلکہ فرض ادا کرے اور ریا کو دور کرنے کی اور اخلاص حاصل ہونے کی کوشش کرے
بہار شریعت حصہ ١٦ صفحہ ٦٣٦ ٦٣٧ ٦٣٨ ٦٣٩
واللہ اعلم بالصواب